شادی ہمارے آقا محمد مصطفیٰﷺ کی سنت ہے مگر آج کل اس فریضے کو سفید پوش لوگوں کے لیے زحمت بنا کر رکھ دیا صاحب حیثیت لوگوں نے جو آئے روز اس ضمن میں نئی نئی رسمیں اور ریتوں کو رواج دے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ملنے والی خاتون نے بتایا کہ ان کے پڑوسی نے اپنی بیٹی کی شادی پر 80لاکھ خرچ کیے جن میں سے 70لاکھ مالیت کا زیور و سامان وغیرہ تھا اور ایک لاکھ ڈیکوریشن پر خرچ کیا کئی دن تک لائٹیں روشن رکھیں‘ پوری گلی میں چراغاں کا سا گمان ہوتا تھا رات میں دن محسوس ہوتا اگر یہی روپیہ کسی غریب کو دے دیتے تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو کر بندے سے تکلیفیں دور کر دیتے دھوم دھام سے شادی کرنے کے بعد چوتھے ہی دن ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہسپتال جا پہنچے اور اب خاندان والے کہتے پھر رہے ہیں کسی کی نظر لگ گئی ہے سوسجن سو دشمن آفرین ہے ایسی سوچ پر ایک لمحے کے لیے ابھی بھی یہ نہیں سوچ رہے کہ اگر کچھ پیسہ غریبوں پر خرچ کردیا جاتا تو شاید بدنظر کا شکار نہ ہوتے مگر سادگی تو مفقود ہے پچھلے دنوں میں خود ایک ملنے والی خاتون کے اکلوتے بیٹے کی شادی میں شریک تھی۔ مہندی پر وہ ہلہ گلہ کہ الامان الحفیظ لڑکے کی بہنوں نے اسٹیج پر ڈانس پیش کیا۔ دوسرے دن بارات تقریباً دوگھنٹے لیٹ ہوگئی۔ لڑکی والوں نے مقامی مسجد( عید گاہ) میں انتظام کیا ہوا تھا پونے چار بجے بارات وہاں پہنچی بینڈ والے بینڈ بجانا شروع ہوئے تو عصر کی اذان ہونے لگی لڑکی کی طرف سے ایک بزرگ نے کہا اذان ہورہی ہے بند کردیں تھوڑی دیر بعد اذان ختم ہوگئی تو وہ پھر شروع ہوگئے مسجد میں نمازیوں کی آمد شروع ہوگئی۔ ان لوگوںنے پھر کہا کہ بند کردیں نماز کا وقت ہوگیا ہے تو لڑکے کی بہن بولی اذان ہورہی ہے یا نماز کا وقت ہے تو پھر کیا ہوا۔ اذان اور نماز تو روز ہی کا معمول ہے ہمارا ایک ہی بھائی ہے اور اس کی ایک ہی دفعہ شادی ہونی ہے ہم اپنے شوق نہ پورے کریں۔ اس بات سے ان میں تکرار ہوگئی اور جھگڑے کی شکل اختیار کرلی بہرحال مولوی صاحب اور دیگر معزز نمازیوں نے بات ختم کروائی۔ مجھے اس بات کا اتنا ملال ہوا کہ بیان نہیں کرسکتی ایسی ذہنیت پر اب کیا کہوں۔ ولیمہ مقامی ہوٹل میں تھا اور جو کچھ وہاں ہوا بیان سے باہر ہے اور ہم خود ہی انہیں وہاں چھوڑ کر واپس گھر آگئے جانا بھی ضروری تھا تعلقات ہی ایسے ہیں جتنی بد مزہ میں ہوئی شاید ہی کوئی ہوا ہوگاکیونکہ باقی سب لوگ توبہت انجوائے کررہے تھے۔ میں اور تفصیل میں جائے بغیر صرف یہ کہوں گی کہ قصور نہ میڈیا کا ہے نہ ہی رسموں کا بلکہ زیادہ قصور مردحضرات کا ہے جن کی عقلوں پر پردہ پڑ گیا ہے اور ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ گئی ہے۔ نجانے اس وقت ان کی غیرت کیوں نہیں جاگتی؟ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین!(رفعت،لاہور)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں